Wednesday, June 13, 2012

قابل تجدید توانائی، عالمی درجہ بندی عنقریب برازیل میں ریو پلس ٹوئنٹی کے نام سے عالمی رہنماو ¿ں کی کانفرنس


June 13, 2012,
نیویارک(سی ایم لنکس )قابل تجدید توانائی، عالمی درجہ بندی عنقریب برازیل میں ریو پلس ٹوئنٹی کے نام سے عالمی رہنماو ¿ں کی ایک سربراہ کانفرنس منعقد ہو رہی ہے۔ اس موقع پر جاری کردہ ایک رپورٹ میں قابل تجدید توانائی سے استفادہ کرنے والے ممالک کی درجہ بندی کی گئی ہے۔یہ رپورٹ امریکا میں قائم نیچرل ریسورسز ڈیفنس کونسل (NRDC) نے جاری کی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ قابل تجدید توانائیوں سے استفادے کے معاملے میں یورپی یونین کا کردار قائدانہ ہے تاہم ترقی پذیر ممالک میں بھی اس شعبے میں نمایاں پیشرفت دیکھنے میں آ رہی ہے۔ریو پلس ٹوئنٹی سربراہ اجلاس بیس تا بائیس جون برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں منعقد ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے پائیدار ترقی پر تبادلہءخیال کے لیے عالمی رہنماو ¿ں کا آخری اجتماع دَس سال پہلے ریو پلس ٹین کے نام سے جنوبی افریقی شہر جوہانسبرگ میں ہوا تھا۔اسپین میں نصب یہ آئینے دھوپ کو درمیان میں بنے پائپ پر مرتکز کرتے ہیں، پائپ میں موجود تیل گرم ہو کر پانی کو بھاپ میں بدلتا اور بالآخر بجلی پیدا کرتا ہےاسپین میں نصب یہ آئینے دھوپ کو درمیان میں بنے پائپ پر مرتکز کرتے ہیں، پائپ میں موجود تیل گرم ہو کر پانی کو بھاپ میں بدلتا اور بالآخر بجلی پیدا کرتا ہےغیر کاروباری ماحولیاتی تنظیم NRDC کے پروگرام ڈائریکٹر جیک شمٹ کے مطابق 2002ءسے اب تک توانائی کے قابل تجدید ذرائع کے ضمن میں بڑے پیمانے پر پیشرفت ہوئی ہے۔ ا ±ن کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کا مقصد ا ±سی پیشرفت کو جانچنا اور یہ دیکھنا ہے کہ مختلف ممالک قابل تجدید توانائیوں کے شعبے میں کہاں کہاں کھڑے ہیں۔رپورٹ کے مطابق 2004ءسے اب تک گروپ جی ٹوئنٹی کے رکن ملکوں میں توانائی کے قابل تجدید ذرائع میں کی جانے والی سرمایہ کاری میں تقریباً 600 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تاہم اس شعبے میں ابھی اور کتنا کچھ کرنے کی ضرورت ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گروپ G20 میں توانائی کے شعبے میں قابل تجدید توانائیوں کا حصہ ابھی بھی صرف 2.6 فیصد بنتا ہے۔دنیا کے کسی بھی دوسرے خطّے کے مقابلے میں یورپی ممالک اپنی بجلی کی ضروریات کا زیادہ بڑا حصہ ہوا، سورج، زمینی حرارت اور لہروں کی طاقت سے حاصل کی جانے والی توانائی سے پورا کرتے ہیں۔NRDC کی رپورٹ کے مطابق جرمنی اس حوالے سے سب سے آگے ہے۔ جہاں جرمنی آج کل اپنی بجلی کی 10.7 فیصد ضروریات قابل تجدید ذرائع سے پوری کر رہا ہے، وہاں امریکا میں یہ تناسب محض 2.7 فیصد ہے جبکہ روس جیسا بڑا ملک ابھی بھی اس شعبے میں بہت کم پیسہ لگا رہا ہے۔اس رپورٹ کے مطابق چین میں 2002ءکے بعد سے ماحول دوست توانائیوں میں سرمایہ کاری اور ا ±ن سے استفادےکے شعبے میں 7605 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ بھارت، برازیل، ترکی، جنوبی افریقہ اور انڈونیشیا میں بھی توانائی کے متبادل اور ماحول دوست ذرائع پر زیادہ توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔متعدد ملکوں میں اس تمام تر مثبت پیشرفت کے باوجود ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ اگر اس شعبے کو ترقی دینے کے لیے کیے جانے والے اقدامات اپنی موجودہ رفتار سے جاری رہے تو دنیا بھر میں مجموعی طور پر قابل تجدید توانائیوں سے استفادہ 2020ءتک دو فیصد سے بڑھ کر سات فیصد تک چلا جائے گا۔ تاہم اس رپورٹ کے مطابق اضافے کی اس شرح کو اس سے کم از کم دگنا ہونا چاہیے۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال دنیا بھر میں توانائی کے متبادل ذرائع میں ہونے والی سرمایہ کاری تقریباً 160 ارب ڈالر تھی تاہم ساتھ ہی ساتھ حکومتوں نے معدنی وسائل سے اور یوں ماحول کو نقصان پہنچا کر بجلی پیدا کرنے والے شعبے کو جو سرکاری امدادی رقوم فراہم کیں وہ چار تا پانچ سو ارب ڈالر تھیں۔ رپورٹ میں ان سرکاری امدادی رقوم کا سلسلہ ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


Recent Posts

Blogger Widgets
Advertise Now!