ہمت ہے تو میرے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لے آئیں، وزیراعظم
اسلام آباد(سی ایم لنکس) وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ انہیں اسپیکر کے علاوہ کوئی نااہل کرنے کا حق نہیں رکھتا، ہمت ہے تو میرے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لے آئیں، ن لیگ میں بہت انا ہے وہ کسی اور پارٹی کے ساتھ نہیں چل سکتے، ایک بھائی صدر اور دوسرا وزیراعظم بننا چاہتا ہے ایسا ممکن نہیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ کل کے فیصلے کے بعد بہت سے اختلافی امور سامنے آئے جن پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا ضروری تھا۔ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ انیس سو ننانوے میں جب مشرف نے غیر آئینی طریقے سے نواز شریف کی حکومت گرائی تو پیپلز پارٹی نے اس کی مخالفت کی اور ہم نے مل کر آمریت کے خلاف جدوجہد کی۔ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے کبھی بھی پارلیمنٹ کی وفاداریاں تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے نواز شریف کو بھی ایوان میں آنے کی پیشکش کی لیکن انہوں نے انکار کر دیا، نواز شریف کو پتا ہے کہ یہ ایوان چلانا اتنا آسان نہیں۔!! ن لیگ میں بہت انا ہے وہ کسی اور پارٹی کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایک بھائی کہتا ہے کہ صدر کو نہیں مانتا اور دوسرا کہتا ہے وزیراعظم کو نہیں مانتا اور ساری ن لیگ کہتی ہے کہ ہم عمران خان کو نہیں مانتے دراصل ایک بھائی صدر اور دوسرا وزیراعظم بننا چاہتا ہے ایسا ممکن نہیں۔ ہمت ہے تو میرے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آئیں۔ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ ن لیگ کو حکومت میں ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی اور انہیں اربوں روپے کے فنڈز بھی دیئے۔ انہوں نے کہا کہ چوہدری نثار نے ایک روز قبل عدالت میں پیشی کے موقع پر میرے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا لیکن کل ان کے رویئے سے بہت دکھ ہوا۔ وزیراعظم نے کہا کہ انہیں نااہل کرنے کا اختیار صرف اور صرف اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس ہے، اسپیکر ابھی مجھے نااہل کردیں میں ابھی یہاں سے چلا جاوٴں گا۔ اسپیکر صاحبہ آپ نے خود عدالت لگانی ہے اور سب سے پوچھنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں سزا کرپشن کے الزام میں نہیں آئین کا تحفظ کرنے پر ملی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر کو استثنیٰ انہوں نے نہیں آئین نے دیا ہے، پوری دنیا میں ہر ملک کے ہیڈ آف اسٹیٹ کو ویانا کنونشن کے تحت استثنیٰ حاصل ہے۔ یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ اٹھارہویں، انیسویں اور بیسویں ترمیم پیپلز پارٹی اکیلے ہی نہیں لے آئی بلکہ ایوان میں موجود چار سو چھیالیس ارکان نے ان ترامیم کی حمایت میں ووٹ دیا، اس وقت ایک انگلی بھی نہیں اٹھائی گئی۔ اگر کسی کو بولنا تھا تو تب بولتے کیوں خاموش رہے۔ انہوں نے کہا کہ محترمہ بینظیر بھٹو ان سے جدا ہو گئیں لیکن ان کی سوچیں پیپلز پارٹی سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا۔ پیپلز پارٹی اس ملک کے سسٹم کو ڈی ریل نہیں کرنا چاہتی۔ وزیراعظم نے کہا کہ مفاہمت کی سیاست کو کمزوری سمجھنا غلطی ہے، اب بے ساکھیوں کی مدد سے آنے کا دور گزر گیا۔ جو لوگ مجھے ہٹانے کی باتیں کررہے ہیں ان کا مقصد ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ لانا ہے۔ ان کا کہنا تھا سزا پر اتنی مبارکبادیں ملی ہیں جتنی وزیراعظم بننے پر بھی نہیں ملی تھیں۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔